Home Blog Page 3

ماں کا انتظار

0

صائمہ کے ساتھ میری ، بہت ہی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ وہ میری پیاری سہیلی تھی اس کا گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا۔ اس لئے ملاقات میں آسانی تھی ۔ اس کی ماں کو ہم آنٹی شیریں کہا کرتے تھے۔ وہ واقعی بے حد شیریں گفتار تھیں۔ مجھ سے بیٹی جیسا پیار کرتی تھیں، میں بھی ان کا ادب ماں سمجھ کر کرتی کیونکہ میری ماں بچپن ہی میں فوت ہو چکی تھیں ۔ میں ان کے پیار میں ممتا کی مٹھاس ڈھونڈا کرتی تھی۔ تب ہی اس گھرانے سے مجھے دلی لگاؤ تھا۔ صائمہ ایک اچھی لڑکی تھی۔ سب ہی اس سے پیار کرتے تھے- اس کے والد کی نوکری نزد یکی گاؤں میں تھی ۔ وہ کبھی کبھار شہر کا چکر لگاتے تھے۔ ہمارے شہر میں صرف ایک ہی کالج تھا۔ وہ دراصل بوائز کالج تھا، بعد میں لڑکیوں کو بھی داخلے کی جازت مل گئی، کیونکہ ہمارا شہر چھوٹا سا تھا اور یہاں ابھی تک لڑکیوں کے لئے علیحدہ کالج تعمیر نہیں ہوا تھا۔ صائمہ فرسٹ ایئر میں تھی اور پڑھائی میں بہت ہوشیار تھی۔ اس کو بڑی مشکل سے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت ملی تھی، ورنہ گاؤں کے کہاں اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے حق میں ہوتے ہیں۔ سب ہی اس پر رشک کرتے ، اس کی ہم جولیاں اسے خوش نصیب کہتیں کیونکہ وہ خود میٹرک کے بعد کالج جانے کی حسرت لے کر گھر بیٹھ گئی تھیں، جن میں اس کی اپنی بڑی بہن ثمرین بھی تھی، جو صرف میٹرک کر سکی تھی ، آگے پڑھنے کی اجازت نہ ملی، اس کی منگنی ہو چکی تھی اور جلد شادی ہونے والی تھی۔ ثمرین بہت خوبصورت تھی ، تب ہی آنا فانا رشتہ اور اب چند دنوں بعد شادی تھ

ی۔ تیاریاں زور شور سے جاری تھیں، صائمہ بھی بہن کی شادی کے سلسلے کافی مصروف تھی ۔ دو دن رہ گئے تو وہ ہمارے گھر شادی کارڈ دینے آئی۔ آنٹی شیریں ساتھ آئی تھیں ۔ کہنے لگیں کہ ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔ میری سوتیلی امی تھیں، ان سے پوچھا گیا۔ ہم بشری کو لے جائیں کیونکہ یہ شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹائے گی ۔

امی نے انکار نہیں کیا۔ یوں میں دو دن کی چھٹی ے کر ان کے گھر چلی گئی ۔ کبھی بھی معمولی سی بات کسی بڑے سانحے کا سبب بن جاتی ہے اور زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اس دن کافی مہمان آئے ہوئے تھے کیونکہ شام کو بارات آنے والی تھی، ہم سب کام میں مصروف ے۔ سر کھجانے کی فرصت نہ تھی

۔ اگلے روز وقت مقررہ پر بارات آگئی اور ہم لڑکیاں باراتیوں کو دیکھنے چھت پر پہنچ گئیں، میں بھی شوق دیدار میں گئی۔ بارات میں آئے ایک لڑکے پر نظر ٹہر گئی یہ خوبرو نوجوان تھا اور اس کا نام بدر منیر تھا، صائمہ کا کزن تھا۔ وہ آگے آگے تھا۔ میری نگاہیں بار بار اس کی طرف اٹھتی تھیں۔

اس نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور اب وقفے وقفے سے اس کی نظریں بھی مجھے تلاش کرنے لگیں ۔ ایسا اکثر شادیوں میں ہوتا ہے کہ آپ کے دل کے کورے کاغذ پر کسی کی تصویر اچانک بن جاتی ہے، گھر آئی تو دل عجیب احساسات سے بھرا تھا۔

بار بار رہ رہ کر منیر کی صورت نگاہوں میں پھرتی تھی ، اس کا خیال آتا رہتا تھا۔ سوچتی تھی اے کاش ایک بار اور کہیں اس کو دیکھ پاؤں تو سجدہ شکر بجالاؤں۔ خدا نے دعا سن لی۔ کالج آئی تو وہ نظر آ گیا۔

وہ اسی کالج میں پڑھتا تھا لیکن کبھی میں نے اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اچانک دیکھا تو دل خوشی سے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ وہ مجھے دیکھ چکا تھا اور اب میری طرف ہی آرہا تھا۔ آپ یہاں اس نے سوال کیا …

میں فرسٹ ائیر میں ہوں اور آپ؟ میں یہاں انٹرمیں پڑھتا ہوں یہاں کبھی دیکھا تو نہیں بس اتفاق ہے، دیکھا ہوگا بھی تو دھیان نہیں دیا ہوگا۔ چلئے اب تو نہیں بھولیں گی بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تو میرے لبوں سے بھی بے اختیار ہی یہ کلمات نکل گئے . کبھی نہیں. اس دن کے بعد ہم دونوں روز ملنے لگے۔ جب فری پیریڈ ہوتا میں اور منیر کینٹین میں اکھٹے کچھ کھاتے پیتے اور باتیں کرتے ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی پکی ہوتی گئی۔ وقت کیسے تیزی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا۔ میں تھرڈ ایئر اور وہ فورتھ ایئر میں پہنچ گیا ۔ ہماری جدائی میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا تھا کیونکہ منیر کے کالج چھوڑتے ہی یہ دن شروع ہو جانے تھے۔ جدائی کے موسم آنے سے پہلے ہم کو کچھ ایسا قدم اٹھانا تھا کہ ہم ایک ہو جائیں لیکن اس کے لئے گھر والوں کی رضامندی ضروری تھی۔

میری تو ماں بھی سوتیلی تھیں ۔ گھر والوں کو پسند سے آگاہ کرنا گویا اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لینے کے مترادف تھا۔ ہوتا یہ کہ امی ابو میرا کالج جانا بند کرا دیتے۔ میں گریجویشن سے محروم ہو جاتی- تب ہی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ مبادا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، تاہم میری شدید خواہش تھی کہ منیر میرا جیون ساتھی بنے ، اس کا بھی یہی ارمان تھا بلکہ وہ تو یہاں تک کہا کرتا تھا اگر تم سے شادی نہ ہوسکی تو یقین جانو کہ میں کچھ کھا کر مرجاؤں گا، کیونکہ میں تمہاری جدائی کا صدمہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔

کالج سے آکر سب سے پہلے اسے فون کرتی کپڑے بدلتی اور کھانا کھاتی تھی۔ رات کو بھی گھنٹوں ہم فون پر باتیں کرتے، ہمارا دل باتیں کرنے سے بھرتا ہی نہیں تھا۔ ان دنوں جبکہ میرے تھر ڈایئر کے پرچے ہورہے تھے۔

ابو کے ایک رشتہ دار گاؤں سے آئے، مجھے دیکھا تو اپنے بیٹے کے لئے پسند کر لیا اور رشتے کی بات کی۔ ابو نے ہاں کر دی اور منگنی کی تاریخ بھی دے دی۔ جب یہ بات مجھے پتہ چلی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں بہت پریشان ہوئی ۔

ناشتہ بھی نہ کیا اور کالج آتے ہی منیر کو ڈھونڈنے لگی تا کہ اپنی پریشانی سے آگاہ کروں دو پیریڈ بمشکل پڑھے، تیسرا پیریڈ خالی تھا۔ اس کا بھی خالی ہوتا تھا لہذا ہم کینٹین میں آگئے۔ میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی پہلا سوال اس نے یہ کیا کہ بشری کیا بات ہے تم کیوں اداس ہو۔ بات میرے منہ سے نہ نکل رہی تھی۔

بڑی مشکل سے بتایا کہ اگلے ماہ منگنی ہونے والی ہے۔ والد صاحب نے رشتہ طے کر دیا ہے۔ تم کچھ کرو وہ بھی پریشان ہو گیا ۔ کہنے لگا اگر تم کہتی ہو تو اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیج دیتا ہوں ، وہ رشتہ طلب کرنے آجائیں گے جیسے بھی ہو، میں ان کو راضی کرلوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بے مراد واپس ہوں گے، ابو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ انہوں نے اپنے جس رشتہ دار کو زبان دے دی ہے،

وہ ان کے بچپن کے دوست بھی ہیں، لہذا والد صاحب نہیں مانیں گے۔ امی سگی ہوتیں تو شاید میرے جذبات کا احساس کر کے ابو سے منوا لیتیں لیکن وہ بھی میرا ساتھ نہیں دیں گی۔ تو پھر تم ہی بتاؤ کہ آگے کیا صورت باقی رہ جاتی ا تم کیا سوچتی ہو؟ اس نے پوچھا اگر تم والدین کی پسند کو قبول کرتی ہو تو میں ہمیشہ کے لئے تمہارے رہتے سے ہٹ جاتا ہوں، پھر کبھی میں تمہاری راہ میں نہیں آؤں گا۔

میں مر تو جاؤں گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی دلہن بننا قبول نہیں ہے۔ میں نے روتے ہوئے قطعیت سے کہا۔ پھر تو ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کسی بڑے شہر جا کر کورٹ میرج کر لیں اور تم گھر کو خیر باد کہہ دو اگر ایسا کر سکتی ہوتو میں زندگی کے آخری سانسوں تک تمہارا ساتھ نباہنے کو تیار ہوں۔ ٹھیک ہے، میں تمہارا ساتھ دوں گی تم جب کہو کے میں گھر چھوڑ کر تمہارے ساتھ نکل چلوں گی لیکن جلد ایسا کرنا ہوگا کیونکہ منگنی کی رسم سے پہلے ہی میں تمہاری ہو جانا چاہتی ہوں اور کسی اور کے نام کی انگھوٹھی اپنی انگلی میں نہیں پہننا چاہتی۔ اچھی طرح سوچ لو کیونکہ مجھے تم جب بھی کہو گی تم کو لے چلوں گا۔ میرا گھر چھوڑنے کا مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں ہے جتنا کہ تمہارا ہے۔ سوچ لیا ہے کسی کے ساتھ سسک سسک کر جینے سے بہتر ہے تمہارے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزاروں۔ یہ میرا حق ہے کیونکہ میری سانسیں میرا بدن میری زندگی میری اپنی ہے۔ تو کیوں میں اپنی روح کو کسی اور کے شکنجے میں دوں۔ صرف دوسروں کی خوشنودی کی خاطر …

وہ قائل نہ بھی تھا تو میں نے اس کو قائل کر لیا اور پھر ہم نے کورٹ میرج کا پروگرام بنا لیا۔ دن اور وقت طے ہو گیا۔ اس نے کہا کہ رات کو دو بجے میں تمہارا انتظار کروں گا- تمہارے گھر کے پیچھے گلی میں آجاؤں گا۔ جب رات کے دس بج گئے میں بہت پریشان ہو گئی۔ سوچ رہی تھی کہ گھر والے سب سو جائیں تو میں کپڑے تبدیل کروں اور بیگ میں تھوڑا سا سامان ضرورت کا اور چند جوڑے کپڑے رکھ لوں، بارہ بجے تک سب ہی سو گئے۔ تب میں نے نہا کر کپڑے بدلے۔

بال خشک کئے پھر بیگ تیار کیا، بہت آہستہ آہستہ سارے کام کئے کہ کھٹکا نہ ہو اور نہ کسی کی آنکھ کھلے۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے بیگ اٹھا کر میں گھر سے نکل آئی۔ دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی کہ کھٹکا نہ ہو جائے۔

گھر کا پچھلا دروازہ جو عقبی کی طرف کھلتا تھا اس کو کھلا ہی چھوڑ دیا۔ چند قدم آگے آئی تو منیر ایک خالی مکان کی دیوار سے لگا کھڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر جان میں جان آگئی اور وہ بھی مجھے دیکھتے ہی تیزی سے میری طرف آیا۔ میرا بیگ ہاتھ میں لے لیا اور تھوڑا سا چلنے کے بعد ہم گلی کے نکڑ پر پہنچے، جہاں اس نے گاڑی کھڑی کر رکھی تھی، شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا اور ہم بحفاظت محلے سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئے، اب ہمارا رخ لاہور کی طرف تھا۔

رات بھر سفر کے بعد صبح 10 بجے کے قریب ہم اب لاہور پہنچ گئے ۔ کافی تھکن ہورہی تھی لہذا منیر نے گاڑی ایک ہوٹل پر کھڑی کر دی اور ہم نے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا تا کہ کچھ آرام کرلیں۔ منیر نے اپنا شناختی کارڈ جمع کرا دیا تھا۔ ہمیں ہوٹل میں کرائے کا کمرہ مل گیا۔ ہم تھکے ہوئے اور کچھ خوفزدہ بھی تھے یہاں پرسکون ماحول ملا۔ بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی، دو بجے تک بے خبر سوتے ہے۔

دوپہر کو نہا دھو کر کھانا منگوایا۔ کھانا کھا کر منیر لیٹ گئے تو میں نے سوال کیا کہ گھر سے تو آگئے ہیں۔ اب بتاؤ آگے کیا کرنا ہے کہا تھوڑی دیر سوچنے دو کہ کیا کرنا ہے۔ پہلے نکاح کا انتظام کیا جائے تا کہ ہمارا ساتھ جائز رہے۔ وہی تو سوچ رہا ہوں یہاں لاہور ہائی کورٹ میں میرا ایک دوست وکالت کرتا ہے۔

اس کے پاس جاتا ہوں اس سے بات کر کے پھر تم کو آکر کورٹ لے جاؤں گا اور نکاح ہوگا۔ گواہوں کا انتظام بھی شاید وہی کر دے گا لیکن اس سے پہلے ہمیں رہائش کا سوچنا ہے نکاح کے بعد کہاں جائیں گے۔ عمر بھر تو اس ہوٹل میں نہیں رہ سکتے ، زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ رہ سکیں ے۔ کوئی مکان کرایہ پر تلاش کرنا ہوگا، ابھی فورتھ ائیر کے پرچے دینے ہیں۔ یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن والدین کو جب پتہ چلے گا کہ ہم نکل آئے ہیں، وہ ہم کو تلاش کریں گے اس کا کیا ہوگا …..

اس سوال پر منیر نے متفکر ہو کر کہا ہاں یہ زیادہ سنگین مسئلہ ہے، مجھ پر پولیس کیس بھی بن سکتا ہے اور وہ اغوا کا پرچہ درج کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا ہے یقیناً ان کو پولیس گرفتار کرے گی ، مشکلات کا سامنا انہیں کرنا پڑے گا۔ یہ باتیں ہم ڈسکس کر رہے تھے اور پریشان ہو رہے تھے کہ گھر سے قدم نکالتے وقت تو ایسا کچھ سوچا نہیں تھا اور اب یہ باتیں سوچ رہے تھے۔

اس وقت آنکھوں پرعشق کی پٹی بندھی ہوئی تھی ، معاشرتی حقائق اور مشکلات ذہن میں ہی نہیں آئے تھے اور یہ حقیقی عفریت منہ پھاڑے سامنے کھڑے تھے۔ منیر نے کہا میں آصف وکیل کے پاس جاتا ہوں اور کورٹ میرج کی بات کرتا ہوں، دیکھوں وہ کیا ٹائم دیتا ہے، پھر تم کو لے چلوں گا تم ہوٹل کے کمرے کو اندر سے لاک کر لینا جب تک کہ میں نہ آؤں دروازہ بجے بھی تو مت کھولنا۔ میں مینجر کو بتا دوں گا اور دو چار گھنٹے تک آجاؤں گا گھبرانا نہیں۔

یہ کر وہ چلا گیا اور میں اس کا انتظار کرنے لگی۔ کمرے میں ٹی وی رکھا تھا، اس کو آن کیا اور دل بہلانے لگی۔ شام کو منیر لوٹ آیا۔ بتایا کہ آصف مل گیا ہے۔ کل کاغذات ٹائپ ہوں گے اور گواہوں کا انتظام ہو گا، پھر تم کو لے جاؤں گا کیونکہ کورٹ میں میرا بیان بھی قلمبند ہوگا۔ اگلے روز وہ صبح ہی چلا گیا اور پھر صبح سے شام ہو گئی منیر نہ لوٹا، میرا جی گھبرا رہا تھا۔ بار بار گھڑی دیکھتی تھی لیکن وقت جیسے تھم گیا تھا۔

ٹی وی آن کیا تو ایک ہولناک خبر سنی کہ ہائیکورٹ کی بلڈنگ کے قریب ہی خود کش دھماکا ہو گیا تھا۔ بہت سے پولیس والے اور راہگیر مر گئے اور بہت سے زخمی ہوئے تھے ، یہ خبر سنتے ہی کلیجہ تھام لیا کیونکہ منیر بھی تو ادھر گیا ہوا تھا۔ شام سے رات ہو گئی۔ وہ نہیں آیا۔ خدا جانتا ہے کہ وہ رات کیسے گزاری۔ پل بھر کو آنکھ نہ لگی۔ شب بھر منیر کی خیر و سلامتی کی دعا کرتی رہی۔

رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔ بیرے نے ایک بار در بجایا مگر میں نے کھولا اور نہ جواب دیا تو وہ لوٹ گیا۔ صبح ہوئی اور منیر نہیں آیا تو میں سمجھ گئی کہ کچھ ہو چکا ہے۔ دوپہر کو منیجر نے فون کیا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ریسیور اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ منیر صاحب شدید زخمی تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی ٹانگیں اڑ گئی تھیں۔ اسپتال میں ان کو ہوش نہیں آسکا وہ چل بسے ہیں اور ان کی جیب سے ہمارے ہوٹل کا کارڈ ملا تو اسپتال والوں نے فون کیا ہے۔ آپ ان کے گھر والوں کا پتہ دیں۔ میں نے منیر کے والد کا نمبر لکھوادیا اور منیجر سے کہا کہ ان کو میرا مت بتائے گا کیونکہ ہم گھر والوں سے چوری چھپے نکلے تھے اور وہ کورٹ میں کورٹ میرج کے سلسلے میں اپنے ایک وکیل دوست سے ملنے گئے تھے-

بدنصیبی سے سانحے کی زد میں آگئے۔ ایسا کہتے ہوئے میں رورہی تھی ۔ تب منیجر نے کہا گھبراؤ نہیں مجھ کو اپنا بھائی سمجھو اور جہاں کہو میں پہنچانے کا انتظام کر دیتا ہوں، البتہ سامان آپ ۔ ساتھ نہیں لے جاسکتیں یہ ہمیں منیر صاحب کے وارثوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں سوچ کر بتاتی ہوں۔  میجر پر مجھے اعتبار نہ تھا، یقینا وہ مجھ کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ وہ محض مجھ کوتسلی دے رہا ہے تب ہی میں نے اپنی دانست میں چالاکی سے کام لیا۔

بیرے کو بلا کر دو ہزار روپے دیئے اور کہا کہ تم میرے بھائی ہو۔ کسی طرح مجھے یہاں سے نکالو لیکن اس طرح کے منیجر کو خبر نہ ہو بیرے نے کہا دو ہزار نہیں اگر پانچ ہزار دو گی تو تمہیں یہاں سے ایسے نکالوں گا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی، ورنہ پولیس ابھی یہاں پہنچ جائے گی یہ دشوار کام ہے۔

میری نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس وقت میں بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ گھر والوں سے خوفزدہ تھی کہ کچھ نہ سوچا اوپر سے پولیس کا ڈر تھا کہ منیجر ضرور کوئی ایسی کارروائی کرنے میں لگا ہے کہ چند لمحوں بعد میں گرفت میں آجاؤں گی۔

حالانکہ بم دھماکے میں جاں بحق ہونا منیر کے لئے تو ایک حادثاتی سانحہ تھا مگر میرا اس کے ساتھ گھر سے بھاگ آنا جرم ہی گردانا جاتا۔ پس میں نے پانچ ہزار بیرے کو دیئے اور اس نے مجھ کو ہوٹل سے باہر جانے کا دوسرا راستہ دکھا دیا۔ جب میں پہلی سیڑھی سے باہر آئی تو کسی نے نہیں دیکھا۔ وہاں ٹیکسی کھڑی تھی بیرے نے مجھ کو اس میں بیٹھ جانے کا اشارہ کر کے کہا کہ یہ تم کو میرے گھر لے جائے گی ،

وہاں جا کر آرام سے بیٹھ جانا اور میں ڈیوٹی ختم کر کے آجاؤں گا، پھر تم جہاں کہو گی تم کو پہنچا دوں گا۔ منیر کا سامان میں نے ہوٹل میں رہنے دیا تھا۔ صرف اپنا بیگ جس میں میرے کپڑے نقدی اور کچھ زیورات تھے ساتھ لیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے بیرے کے گھر کے دروازے پر اتارا شاید وہ اس کو جانتا تھا۔ بیرے کا نام افتخار تھا اور یہ ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ ہوٹل میں جو مرد عیاشی کے لئے آکر ٹھہرتے تھے یہ ان کو غلط قسم کی تفریح مہیا کرنے کا ذریعہ تھا لہذا اس کا رابطہ اس بازار سے بھی رہتا تھا۔

افتخار رات کو آ گیا۔ اس کے گھر میں خواتین نہیں تھیں اکیلا ہی رہتا تھا۔ آتے ہی اس نے ایک عورت کو فون کیا ۔ تھوڑی دیر میں وہ عورت آئی دونوں نے کچھ دیر تک دوسرے کمرے میں گفت و شنید کی پھر بولا بشری بی بی یہ میری خالہ ہیں، قریب ہی رہتی ہیں تم

ان کے گھر چلی جاؤ کیونکہ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں لہذا تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں ہے۔ یہ تم کو کل یہاں پہنچا دیں گی۔ چاہو تو اپنا سامان رہنے دو یا ساتھ لے جاؤ خالہ نے کہا ان کا سامان یہیں رہنے دو کل میں منگوالوں گی ، ابھی رات ہو رہی ہے اور ہم دونوں عور تیں ٹیکسی میں جائیں گی سامان لے جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان بیگ میں زیور وغیرہ یا کوئی قیمتی سامان بھی ہو۔ میں منیر کی ہلاکت کے صدمے سے نیم جان تھی- اوپر سے خالہ کی ہمدردانہ باتیں اور بار بار گلے لگا کر کہتی تھیں مت رو میری بچی رونا نہیں۔ مجھے ماں سمجھو۔ جیسا کہو گی ویسا ہی ہوگا ۔

بھروسہ رکھو۔ کل تک تجھے تیرے گھر پہنچا دوں گی۔ اس شاطر عورت نے میرا سامان افتخار کے حوالے کیا اور مجھے ٹیکسی میں بٹھا کر اس جگہ لے آئی جس کو بازار حسن کہا جاتا ہے، میں جب یہاں آئی اور ماحول کا اندازہ ہوا تو ہکا بکا رہ گئی۔ منیر کے مرنے کا غم بھی بھول گئی ، سامنے اپنی عزت کی موت نظر آرہی تھی، اس جگہ آنے سے تو مر جانا کیا برا

تھا، کاش میں منیر کے ساتھ ہی بم دھماکے میں اڑ جاتی۔ میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے ۔ عورت کے کوٹھے پر لوگ آگئے تھے۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں کہ ان میں ایک پولیس افسر کے ساتھ میرا کزن منصب خان بھی تھا۔ منصب کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ رویؤں یا ہنسوں۔ میں ہمت کر کے پردہ ہٹا کر اس کی طرف دوڑی اور اس کے پاس جا کر رونے لگی وہ بھی مجھے کو دیکھ کر حیران پریشان ہو گیا تو میں نے کہا۔ منصب میں رستہ بھول گئی تھی اور یہ لوگ دھوکے

سے یہاں لائے ہیں خدا کے لئے مجھے یہاں سے لے چلو۔ کب لائے تھے یہ تم کو ؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے، میں نے جواب دیا۔ اچھا فکر نہ کرو اس نے اپنے پولیس آفیسر دوست سے کچھ کہا اور اس نے بالا خانے کی مالکہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ میں نے دیکھا عورت خوفزدہ ہوگئی۔ اس نے ہاتھ باندھے اور پھر منصب سے کہا کہ بے شک اس کو لے جاؤ کیونکہ ابھی میں نے اس کے پیسے نہیں دیئے، اصل مجرم ہوٹل کا بیرا افتخار ہے، اس کا سامان بھی اسی کے پاس ہے، وہی اسے فروخت کرنے لایا تھا۔ منصب میری سوتیلی والدہ کا بھانجا تھا۔

وہ مجھے ساتھ لے آیا اور اپنے دوست پولیس والے سے کہا کہ یہ میری خالہ کی بیٹی ہے، اس لئے بات نہیں نکلنی چاہئے ، ورنہ خاندان کی بدنامی ہوگی ۔ غلطی سے ان بد معاشوں کے ہاتھ چڑھ گئی۔ شکر ہے ہم یہاں بر وقت آگئے۔

بہر حال میں صبح ہی اس کو گھر لے جاؤں گا تم افتخار سے اس کا بیگ برآمد کراؤ جس میں اس کا شناختی کارڈ، زیور اور نقد رقم ہے۔ وہ رات میں نے منصب کے ساتھ گزاری۔ گرچہ میرا دل منیر کے لئے دکھ سے بھرا ہوا تھا مگر میں نے منصب پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ مجھ کو منیر کا دکھ ہے اور میں اس کے لئے رورہی ہوں۔ گناہ منیر نے میرے ساتھ نہیں کیا کیونکہ وہ نکاح کے بعد جائز رشتے سے ملنا چاہتا تھا ، تا کہ خدا ہم سے خوش ہو مگر موت نے اس کو مہلت نہ دی۔

اللہ تعالیٰ نے اس کو گناہ سے بچا لیا۔ وہ ایک سچا انسان تھا مگر منصب میں خود پر قابو پانے کا حوصلہ نہ تھا، اس لئے مجھے اس بازار کی گندگی بننے سے تو بچا لیا تھا مگر خود اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، جب میں زار و قطار روئی تو وہ شرمندہ ہوا اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے سے شادی کرے گا اور معافی بھی مانگی مگر اب کیا فائدہ تھا لوٹ لینے کے بعد کوئی معافی مانگے تو دامن تار تار ہی رہتا ہے۔

اگلے دن منصب مجھے گھر لے آیا اور میرے والدین کو سمجھایا کہ اس کو کچھ مت کہنا جوغلطی ہوئی ہے اس کو معاف کر دیجئے اور شکر کیجئے کہ اس کی عزت اس بازار میں نیلام ہونے سے بچ گئی ، اس روز اگر میں اپنے اس پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں نہ جاتا تو نجانے اس پر کیا قیامت گزر جاتی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ میرا وہاں جانا آپ کی عزت کے تحفظ کا سبب بن گیا اور شاید منیر کی موت بھی اسی طرح لکھی تھی کہ وہ بھیانک حادثے میں اس طرح دنیا سے چلا گیا۔ یہ حقیقت تو بہرحال سب کو پتہ چل چکی تھی کہ میں منیر کے ساتھ بھاگی تھی مگر موت اس کو لے جا چکی تھی لہذا کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ منصب کے سمجھانے پر امی ابو خاموش ہو گئے ۔

اگرچہ مجھ سے ناراض بہت تھے اور بات بھی نہ کرتے تھے مگر مار پیٹ سے کام نہیں لیا کہ اس میں ان کی بدنامی تھی ، پھر منصب نے ابو کو یقین دلا دیا تھا کہ فکر مت کریں، میں آپ کی بیٹی سے شادی کروں گا۔ اب کوئی اس سے بدسلوکی نہ کرے اور نہ گھر سے بھاگنے کا طعنہ دے۔ منصب ہر دوسرے تیسرے دن مجھے فون کرتا تھا اور میری خیریت دریافت کرتا تھا۔

کبھی کبھی میں بھی فون کرتی کہ میری اندھیری زندگی کی اب وہ ایک ہی اس تھا۔ ایک روز اس کا فون نہ آیا اور میں نے بھی فون نہیں کیا تو اگلے دن اس نے فون کر کے کہا کہ بشری رات تم نے بھی فون نہیں کیا کیوں؟ میں انتظار کرتا رہا۔ مہمان آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے میں نے فون کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے بہانہ کیا۔ تم کو پتا ہے جس رات میں تم سے بات نہیں کرتا ہے کہ اس شب یہ کالی رین گزرنے کا نام نہیں لیتی اور تم ہو کہ بات

نہیں سمجھتیں ، میں سمجھتیں ہوں مگر مجبوری ہے۔ اچھا میں تمہارے شہر آرہا ہوں ، صرف تم کو دیکھنے چھپ نہ جانا۔ سامنے ضرور آنا اچھا کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ دل گھبرانے لگا – بے شک منصب کو مجھ سے پیار ہو گیا تھا مگر میں جانتی تھی کہ اس کی منگنی اس کے ماموں کی بیٹی آسیہ سے ہو چکی ہے اور مجھے سے شادی کرنے کے لئے اس کو اس رشتے سے بغاوت کرنی پڑے گی جو میری امی کو کسی صورت گوارہ نہ تھا۔ منصب گھر آتا تو بھی امی کے سامنے ہم بات نہ کرتے کہ ماں اپنے بھانجے کا مجھ سے گھلنا ملنا سخت نا پسند کرتیں ،

تاہم فون پر اس نے کہا کہ صرف تم سے ملنے آرہا ہوں۔ وہ یہاں اپنے گھر والوں سے ملنے آ رہا تھا، پھر اس نے مجھ سے ملنے آنا تھا مگر گھر پر بات نہیں ہو سکتی تھی لہذا اس نے یہاں آکر فون کیا کہ پھر تم فرح کے گھر آجاؤ وہاں بات کر لیتے ہیں۔ فرح اس کے چچا کی بیٹی تھی اور ان کا گھر قریب ہی تھا۔ مجبوراً میں نے امی سے کہا کہ فرح بیمار ہے، کیا میں پوچھنے چلی جاؤں وہ بولیں ہرگز نہیں۔ شام ہونے والی ہے یہ کون سا وقت ہے فرح کے ہاں جانے کا تمہارے ابا ناراض ہوں گے۔ میری بہن نے طرفداری کی ۔

امی جانے دونا بھیا چھوڑ آئے گا۔ ہر گز نہیں۔ آج کل جوان لڑکی کو بھیجنے کا زمانہ نہیں لوگ پہلے ہی کیا کم باتیں بناتے ہیں۔ اتنے میں فرح کے گھر سے اس کا چھوٹا بھائی آگیا کہ فرح باجی کو اسپتال لے جارہے ہیں ، تب امی کا دل پسیجا، بولیں تم لوگ گھر پر رہو۔

میں خود جاتی ہوں وہاں۔ اسی دم وہ فرح کے گھر چلی گئیں۔ ان کے جانے کی دیر تھی کہ منصب گھر آگیا، دراصل اس نے فرح کے بھائی کو بھیجا تھا۔ امی گھر پر نہ تھیں ۔ اب ہم بات کر سکتے تھے، تب اس نے کہا بشری ۔ تم ماں کو راضی کر لو کیونکہ تمہیں پتہ ہے کہ میری ماں آسیہ کے علاوہ کسی کو بہو نہ بنائیں گی وہ ضد کی پکی ہیں۔ یہ ناممکن ہے تمہاری خالہ میری سگی ماں نہیں ہے، تم جانتے ہو تم ان کو راضی کر سکتے ہو تو کوشش کر کے دیکھو میں ان کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ۔ اچھا بتاؤ اگر ہماری شادی پر کوئی راضی نہ ہو تو کیا تم مجھ سے کورٹ میرج کر لو گی ۔ اس کی بات سن کر مجھ کو ٹھنڈا پسینہ آگیا کیا کہہ رہے ہو۔

منصب ایک بار پہلے بھی میں اس راہ گزر چکی ہوں اور رستہ بھول چکی ہوں تم نہ ملتے تو تباہی میرا مقدر تھی لیکن اس بار ایسا نہ ہوگا، میں جو تمہارے ساتھ ہوں ۔ تم خود اپنے اور میرے گھر والوں سے بات کرو گے منصب، میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی … کوشش تو کرو اس نے کہا آگے مقدر کی بات ہے لیکن کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ یہ ناممکن ہے ہاں اگر تم میرے والد صاحب کو راضی کر لو تب شاید یہ ممکن ہو جائے۔ منصب نے گھر جا کر اپنی والدہ سے بات کی۔

اس کی ماں نے میری ماں سے کہا امی نے اس وقت مجھ پر غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ کہ کیا تجھے اسی ان کے لئے پروان چڑھایا تھا۔ اب جو تیری خالہ کہہ رہی تھی مجھے تو سن کر شرم آرہی تھی تو مر کیوں نہ گئی بے حیا ، پہلے ایک کے ساتھ بھاگی، اب دوسرے کے ساتھ دوستی کرلی ہے۔ منصب میرا خون ہے۔ کیا وہ تھوکا چاٹے گا؟ تم نے ڈورے ڈالے بھی تو کس پر؟ میرے بھائی کی بیٹی آسیہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے بے غیرت ۔ تو نے ہمیں ڈس لیا ہے، ہم تو برباد ہو گئے ہیں۔ اگلے دن خالہ آگئیں بولیں میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ بشری کے سوا کسی سے شادی نہ کرے گا۔

جان دے دے گا ۔ کیسی بے حیا ہے تمہاری لڑکی کہ میرا بیٹا اپنے منہ سے نام لے رہا ہے۔ میں رونے لگئی امی ان کی باتیں مت سنیں، ان کا بیٹا خود میرے پاس آیا تھا۔ میں نہیں گئی تھی ان کے بیٹے کے پاس. بکواس بند کر بے حیا کچھ شرم کر لڑکے ایسی لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے جو گھر سے بھاگ چکی ہوں ۔ اس نے تم سے شادی کر بھی لی تو کچھ دن بعد چھوڑ دے گا۔ وہ ہمارا خون ہے، میں اس کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ امی نے مجھ کو اتنی سنائیں کہ میں خون کے آنسو رونے لگی۔ آخر کار کمرے میں بند ہوئی ۔

تب ہی فون کی گھنٹی بجی۔ منصب کا فون تھا۔ اس نے کہا سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلے گا، ہمارے بزرگ یوں ماننے والے نہیں ہیں۔ میں کسی قیمت آسیہ سے شادی نہیں کروں گا اور تم اپنی عصمت کا گوہر میرے حوالے کر چکی ہو تو بہتر ہے کہ شادی بھی مجھ سے کر لو۔ کیسے کروں کوئی مانتا نہیں روتے ہوئے میں نے کہا- ایسے ہی جیسے منیر کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے چلی گئی تھی- میرے لئے کیا گھر کی دہلیز پار نہیں کر

سکتیں جبکہ میں نے تمہارے ماضی کو ایشو نہیں بنایا ہے۔ تم کو واپس گھر پہنچایا ہے۔ کیا اب بھی میری محبت کا اعتبار نہیں ہے؟ ہمت کرو اور نکلو گھر سے ، ہم کراچی جا کر کورٹ میرج کر لیں گے۔ غرض وہ مجھے اکساتا رہا اور مجھے ماں کی باتیں یاد آرہی تھیں ، تب بن سوچے سمجھے میں نے کہہ دیا کہ میں آجاؤں کی جگہ بتا دو۔

اس نے وقت اور جگہ بتا دی اور کہا کہ میں لینے آجاؤں گا گھبرانا نہیں آسیہ سے چھٹکارا پانے کا بس یہی ایک طریقہ ہے- میرے دل میں بھی سوتیلی ماں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے بہت ستایا اور رلایا تھا ، بہت گندی گندی گالیوں سے نوازا تھا۔ بے عزتی اور اہانت کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی۔ رات کو میں نکل گئی ، گرچہ ضمیر ملامت کرتا رہا سارا دن یہی سوچتی جاتی تھی کہ جو میں کر رہی ہوں ٹھیک ہے۔ جب گاڑی کراچی کے اسٹیشن پر رکی میں نے ادھر ادھر دیکھا منصب مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ دو گھنٹے میں پلیٹ فارم پر کھڑی اس کی راہ تکتی رہی ادھر اُدھر ٹہلتی رہی۔ دو نوجوان کافی دیر سے مجھے دیکھ رہے تھے۔

میرے قریب آگئے اور آنکھ مار کر بولے ہمارے ساتھ چلو گی میں گھبرا گئی۔ پسینے پسینے ہوگئی تو وہ قہقہے لگانے لگے کہ یار وہ نہیں آیا جس کے لئے یہ بھاگ کر آئی ہے، ایسا ہی لگتا دوسرے نے کہا تو چلے گی ہمارے ساتھ ہاہاہا ان کے قہقہے میرا پیچھا کرنے لگے۔ شام ہونے والی تھی اور لوگ عجیب عجیب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔

کافی دیر ہو چکی تھی، میں نے سوچا شاید اب وہ نہیں آئے گا۔ زمانے کی تو عادت ہے دھوکا دینے کی۔ پھر بھی دل یہی کہتا تھا۔ نہیں وہ ایسا نہیں ہے۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اگر منصب نہیں آیا تو مجھے واپس جانا پڑے گا مگر میں کس منہ سے گھر والوں کا سامنا کروں گی، خاص طور پر اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ جنہوں نے پہلی غلطی پر مجھے معاف کر دیا تھا۔ حالانکہ ان کی عزت نیلام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔

ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ عقب میں قدموں کی آہٹ ہوئی۔ ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا تو میری سانس رک گئی منصب تھا مگر ساتھ ابو بھی تھے ابو کو دیکھ کر جان نکل گئی۔ اب ابو اور منصب آگے آگے تھے اور میں ایک مردہ لاش کی طرح ان پیچھے پیچھے چل رہی تھی، آخر ہم ایک ہوٹل آگئے۔ مجھے وہاں چھوڑ کر ابو اور منصب چلے گئے ۔ نکاح کا انتظام کرنے کے لئے ۔ اگلے دن میرا نکاح تھا ابو نے خود میرا نکاح منصب سے کرایا اور مجھے اس کے حوالے کر کے خود گھر واپس چلے گئے۔

انہوں نے گھرجا کر امی کو کچھ نہ بتایا کہ کیا ہوا ہے۔ جانتے تھے کہ امی نہ صرف ہنگامہ برپا کر دیں گی بلکہ ابو سے اس عمر میں طلاق مانگ لیں گی کہ میں نے ان کی بھابھی کے ہونے والے سرتاج کو اپنے سر پر سجا لیا تھا۔ کافی دن بعد ایک روز دروازہ بجا۔ میں نے کھولا سامنے بھائی کھڑا تھا مجھے دھکا دیا۔ میں گرتے کرتے بچی۔ منصب نے سنبھال لیا۔ بھائی چلا رہا تھا کہ میں تجھے زندہ نہ چھوڑوں گا، تیری لاش لے کر جاؤں گا۔ منصب نے اس کو روکنا چاہا۔ سمجھانا چاہا مگر وہ نہ رکا ۔ تب منصب نے میرے بھائی کو بتا دیا کہ اس کا اور میرا بندھن آپ کے والد صاحب کی رضامندی سے ہوا ہے اور تصویر اس کو دکھا دی، جس میں میرا اور منصب کا نکاح ہو رہا تھا اور ابو بھی اس تصویر میں موجود تھے۔ بھائی کا غصہ تھم گیا۔ منصب نے کہا۔

یہ سب تمہارے والد صاحب کی منصوبہ بندی سے ہوا ہے، کیونکہ تمہاری والدہ کسی صورت نہ مانتی تھیں تو ایسا کرنا پڑا- بھائی خاموش ہو کر لوٹ گیا لیکن پھر کبھی میرے دروازے پر نہیں آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ابو فوت ہو گئے ۔ امی کو اصل حقیقیت پتہ چل چکی ہے۔ میں شب و روز ان کا انتظار کرتی ہوں لیکن وہ نہیں آتیں شاید انہوں نے میری صورت نہ دیکھنے کی قسم کھالی ہے۔

بندر بادشاہ اور بھوت

0

ایک گھنے جنگل میں بندروں کا ایک گروہ رہتا تھا۔ بندروں کا بادشاہ بہت عقلمند تھا۔ ایک دن اس نے اپنے گروہ کو اکٹھے بلایا۔

‘میرے پیارے بندرو ہم خوش قسمت ہیں کہ اس خوبصورت جنگل میں رہتے ہیں لیکن خبردار! درخت اور پودے ہرے بھرے اور سرسبز ہو سکتے ہیں لیکن ان میں بہت سے زہریلے پھل ہوتے ہیں۔ تالاب صاف، چمکتا ہوا پانی ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے ایک میں بھوت رہتا ہے۔ اس لیے پہلے مجھ سے پوچھے بغیر کچھ نہ کھاؤ اور نہ پیو۔’

اگلے دن ایک بندر کو پیاس لگی۔ اسے بادشاہ کی بات یاد آئی اور وہ اس سے بات کرنے چلا گیا۔

‘بچے فکر نہ کرو!’ بادشاہ نے کہا۔ ‘میں تالاب کی چھان بین کروں گا کہ یہ محفوظ ہے’۔

جب وہ تالاب کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بڑے بڑے قدم اندر جا رہے ہیں لیکن باہر نہیں آرہے ہیں۔ بادشاہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں بھوت چھپا ہوا تھا۔ سب بندر رونے لگے، اس فکر میں کہ وہ پانی کیسے پئیں گے۔ بادشاہ نے انہیں تسلی دی اور بھوت کا مقابلہ کرنے چلا گیا۔

بھوت نے قہقہہ لگایا، ‘تم بڑے مخمصے میں ہو، بندر بادشاہ! اگر تمھارے بندر تالاب میں آئے تو میں انہیں کھا لوں گا۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو وہ پیاس سے مر جائیں گے!’

بادشاہ نے سوچا،’ مجھے کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔’

اس نے اپنے بندروں سے بانس کے ٹکڑے جمع کرنے کو کہا۔ کھوکھلی بانس کی چھڑیوں کو آپس میں جوڑ کر اس نے ایک بڑا پائپ بنایا جو تالاب کا پانی چوستا تھا۔ بندر اپنے دل کی خواہش کے مطابق پینے کے قابل تھے۔

‘سب کی طرف سے بندر بادشاہ کو سلام!’ بندروں نے نعرے لگائے۔

وہ بھوت جسے بندر بادشاہ نے اپنی سمجھداری سے شکست دی دی تھی وہ لمبے چہرے کے ساتھ تالاب میں واپس چلا گیا!

جب چیزیں مشکل لگیں تو کبھی ہمت نہ ہاریں، بندر بادشاہ کی طرح با صبر اور ہوشیار رہیں

لعنت

0

بہت عرصہ پہلے بڑے جنگل کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ یہ زیادہ تر وقت پرامن گاؤں تھا، لیکن گاؤں کے لوگ لوبیزون کے خوف میں رہتے تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ جنگل کے اندر رہتے تھے۔ لوبیزون تاریک مخلوق تھے، آدھا آدمی اور آدھا بھیڑیا، اور ہر پورے چاند کی تاریخ پر کہا جاتا تھا کہ یہ مخلوق انسانی گوشت کی تلاش میں جنگل سے باہر نکل آتی تھی۔

لیکن ایسی مخلوق کیسے وجود میں آئی؟ یہ سادہ بات ہے: کسی بھی خاندان میں پیدا ہونے والے ساتویں بیٹے پر لعنت۔ لعنت کسی بیٹی پر نہیں پڑے گی لیکن اگر ایک ماں نے سات بیٹوں کو جنم دیا تو ان بیٹوں میں سے آخری ضرور لوبیزون بنے گا۔

جب فلپ پیدا ہوا تو اس کی ماں خوفزدہ تھی۔ اسے بیٹی کی امید تھی، ساتویں بیٹے کی نہیں۔ لیکن فلپ کی ماں مہربان اور پیار کرنے والی تھی اور وہ اپنے بچے سے پیچھے ہٹنے  والی نہیں تھی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ گاؤں والے اس لعنت کے بارے میں کچھ بھی کہیں۔

کئی سال سکون میں گزر گئے۔ فلپ ایک مضبوط لڑکا بن گیا جسے اس کی ماں اور باپ اور چھ بھائی بہت پسند کرتے تھے۔ لیکن فلپ یہ یہ نوٹس کرنے سے نہیں رہ سکا کہ اس کے ساتھ اس کے بھائیوں سے مختلف سلوک کیا گیا تھا۔ وہ اسکول نہیں گیا کیونکہ استاد اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ مناسب نہیں تھا کیونکہ نوجوان لڑکا نئی چیزیں سیکھنا پسند کرتا تھا اور شدت سے دوسرے بچوں کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا تھا۔

اگر کبھی فلپ کو اس کی ماں نے روٹی لینے کے لیے بھیجا تو گاؤں کے لوگ کبھی بھی اس کے راستے میں نہیں آتے تھے اور ہمیشہ اس کی طرف خوف اور ناراضگی کے امتزاج سے دیکھتے جس نے نوجوان لڑکے کو بے چین کر دیا۔ دوسرے بچے اس کے ساتھ نہیں کھیلتے تھے اور جب پورا چاند ہوتا تھا تو اسے کبھی باغ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ آخری نقطہ شاید ان سب میں سب سے برا تھا کیونکہ فلپ کو چاند سے بہت پیار تھا، اس کے بارے میں کچھ – خاص طور پر جب وہ رات کے آسمان میں بھرا ہوا اور گول تھا – نے فلپ سے بات کی اور اس کی روح کو جگایا اور اسے گانے، ناچنے اور بھاگنے پر مجبور کیا۔

زندگی پرامن ہونے کے باوجود خوشی سے بہت دور تھی۔ فلپ نے ہر گزرتے سال کے ساتھ خود کو زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ پایا۔ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے کبھی بھی دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ ان کی ہنسی سنتا اور تصور کرتا کہ وہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ سب کتنا مزہ کر رہے ہیں۔ فلپ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی ماں اور اس کے بھائی بھی اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔

‘میرے ساتھ اتنا برا کیا ہے؟’ فلپ اکثر اپنے آپ سے پوچھتا تھا۔ ‘میں اتنا برا لڑکا نہیں ہوں۔ میں اپنے کام کاج کرتا ہوں اور میں ‘تقریباً کبھی بدتمیزی نہیں کرتا۔ میرے ساتھ دوسرے بچوں سے اتنا مختلف سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟

جیسے ہی وہ اپنی پندرہویں سالگرہ کے قریب پہنچا، فلپ پہلے سے کہیں زیادہ اداس تھا۔ اس کی ماں اسے شاذ و نادر ہی گھر سے باہر جانے دیتی تھی اور وہ اکثر اس کی صحبت میں مشتعل نظر آتی تھی۔ کم عمر بچے اگر کبھی اسے اپنے گھر کے پاس خود کھیلتے ہوئے دیکھتے تو اس پر پتھر پھینک دیتے، لیکن جب وہ ان کو للکارنے کے لیے مڑتا تو وہ چیختے ہوئے بھاگ جاتے جیسے وہ کوئی عفریت ہو۔ کبھی کبھی فلپ بڑے جنگل میں پناہ ڈھونڈنے اور کبھی واپس نہ آنے کی خواہش کرتا تھا۔

ایک دن اس کی ماں نے اسے بٹھایا اور اس کی پریشانی کی وجہ بتائی۔ ‘تم میرے ساتویں بیٹے ہو،’ اس نے کہا، ‘اور میرے بچے، تم پر لعنت ہے’۔

فلپ بہت پریشان تھا۔ ‘کیسی لعنت؟’ اس نے پوچھا۔

‘اپنی پندرہویں سالگرہ پر آپ ایک لوبیزون بن جائیں گے، ایک ایسی مخلوق جو آدھا انسان اور آدھا بھیڑیا ہے۔’

فلپ اپنی کتابوں سے لوبیزون کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا اور ان کہانیوں سے جو اس کے بھائیوں نے رات کو شیئر کی تھیں جب بھی انہیں لگتا تھا کہ وہ اپنے بستر پر سو رہا ہے۔ لیکن انہوں نے فلپ کو کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اس طرح ملعون ہے۔ وہ لوبیزون نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ شیطانی یا ظالم نہیں بننا چاہتا تھا، اور اسے اپنے پورے جسم پر لمبے پنجوں اور موٹی کھال ہونے کے خیال کے بارے میں بالکل بھی یقین نہیں تھا۔

اپنی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر، نوجوان فلپ اپنی پوری زندگی میں اس سے زیادہ اداس تھا جتنا وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ وہ اندھیرے میں بستر پر بیٹھ کر اپنے آپ سے رونے لگا۔ ‘میں ہمیشہ اکیلا رہا ہوں،’ اس نے سوچا۔

‘میرے ساتھ ہمیشہ مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اور اب میں لوبیزون بننے پر لعنت شدہ ہوں۔ میں کیا کروں؟ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ ہر ایک کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ میں صرف اتنا چاہتا تھا کہ دوستوں کے ساتھ جنگل میں کھیلوں اور رات کو خوبصورت چاند کی تعریف کروں۔’

اسی وقت فلپ نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی سے باہر دیکھا اور دیکھا کہ چاند ستاروں سے بھرے گہرے نیلے آسمان میں طلوع ہو رہا تھا ۔ یہ ایک بڑا خوبصورت پورا چاند تھا اور اس نے اس کا دل خوشی سے بھر دیا۔ پھر کچھ بہت ہی عجیب ہوا: فلپ نے اپنے پیٹ میں ہلچل محسوس کی اور اپنی جلد پر خارش محسوس کی۔ اس کے سینے سے چیخنے کی آواز آئی اور اس نے چاند کی طرف سر اٹھا کر اسے پکارا جیسا اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اس کے جسم پر اچانک کھال پھوٹ آئی اور اس کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن ہاتھی دانت کے رنگ کے لمبے پنجوں میں بدل گئے۔ اس کے کپڑے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور اس کے قدموں میں فرش پر گر گئے۔ اور جب فلپ نے آئینے میں دیکھا تو اس نے ایک لمبے بھیڑیے والے لڑکے کا عکس دیکھا جو اس کے پورے جسم پر موٹی کھال کے ساتھ اسے گھور رہا تھا اور جنگلی سرخ آنکھیں جو اندھیرے میں چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔

‘ تو میں ایک لوبیزون ہوں!’ اس نے چونک کر کہا۔

فلپ نے چاند اور جنگل کی پکار کو محسوس کیا اور وہ جانتا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پرانی زندگی سے منہ موڑ لے اور اپنی تقدیر کو گلے لگائے۔

نوجوان بھیڑیے والے لڑکے نے اپنے بیڈروم کی کھڑکی کھول دی۔ رات کو باہر چھلانگ لگانے سے پہلے وہ رک گیا اور اپنے پرانے بیڈروم کے ارد گرد ایک آخری نظر ڈالی اور اپنی ماں اور باپ اور اپنے چھ بھائیوں کے بارے میں سوچا۔ ‘میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا، میرے پیارے خاندان، لیکن اب مجھے قبول کرنا چاہیے کہ میں کون ہوں اور نئی زندگی کا آغاز کروں گا۔’

پھر وہ اپنے سونے کے کمرے کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر جنگل کی طرف بھاگا، ہر وقت چاند پر چیختا رہتا، اس کا دل مستقبل کے لیے عجیب نئی امید سے بھرا رہتا تھا۔

جب فلپ بڑے گہرے جنگل کے اندر تھا، تو اس نے ایک خوبصورت جگہ پر رک کر قدیم درختوں اور آسمان میں بلندی پر موجود خوبصورت چاند کو دیکھا۔ وہ چیختا اور چیختا اور چھلانگ لگاتا اور ناچتا اور ہنستا… اور جب آخر کار اس نے چیخنا اور ناچنا بند کر دیا تو اس نے اردگرد دیکھا اور دیکھا کہ دیگر لوبیزون جنگل کے خالی حصے میں جمع تھے۔ کچھ فلپ کی طرح جوان تھے، کچھ بوڑھے تھے۔

وہ فلپ کے قریب پہنچے اور اس کا استقبال کیا۔

’تم اب گھرمیں ہو، دوستوں کے درمیان بڑے جنگل میں،‘ ایک نے نرم اور شفیق لہجے میں کہا۔ اور یہ تب ہی تھا جب فلپ کو احساس ہوا کہ وہ بالکل بھی لعنتی نہیں ہے۔

‘میں ایک لوبیزون ہوں اور میں گھر میں ہوں!’ اس نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا جب اس نے پورے چاند تک اپنا سر اٹھایا اور پوری طاقت سے چیخا۔ دوسرے لوبیزون سب نے اس میں شمولیت اختیار کی اور چاند کے اعزاز میں رات کے آسمان پر ایک زبردست  گروپ میں گانا گایا۔

کئی میل دور، فلپ کی ماں اپنے باغ میں اپنے نائٹ گاؤن میں ملبوس کھڑی تھی اور بڑے جنگل کے اندر سے ہلکی ہوا کے جھونکے پر بہتی ہوئی لوبیزون کی آواز سن رہی تھی۔ بوڑھی عورت اپنے آپ سے مسکرائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ساتویں بیٹے نے آخرکار اپنے آپ کیلئے ایک ایسا گھرڈھونڈ لیا ہے جہاں اس کا استقبال کیا جائے گا اور جہاں اس کے بہت سے دوست ہوں گے اور وہ لمبی اور خوشگوار

علی انگوٹھا

0

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جسے وہ علی کہتے تھے۔

بچہ اپنے والدین کے لیے خلاف توقع تھا، کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تو وہ انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا

ماں اور باپ دونوں شروع میں بہت پریشان تھے، لیکن پھر انہوں نے خود سوچا،

‘ یہی ہمارے لیے خدا کی دین  ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا، مضبوط لڑکا بنے گا۔’

لیکن سال گزرتے گئے اور علی بالکل نہیں بڑھا۔ وہ انگوٹھے کی طرح چھوٹا رہ گیا۔

ہر شام رات کے کھانے پر ماں اپنے بیٹے کے لیے میز پر جگہ رکھ دیتی۔

وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں ایک چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی۔

علی کے پاس ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا جسے اس کی ماں  پانی کے ایک قطرے سے بھر دیا کرتی تھی۔

گھر والے جب گھر پر ہوتے تھے تو سب ٹھیک تھا لیکن ماں باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے شرمندہ تھے تھی، یہ سوچ کر کہ اگر کسی نے اسے دیکھا تو وہ نوجوان لڑکے کو چھیڑیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسے گھر کے اندر ہمیشہ نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔

مزید کئی سال گزر گئے اور بالآخر علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔

وہ ابھی بھی انگوٹھے کی طرح چھوٹا تھا، لیکن اس کی آواز بہت گہری اور بہت بلند ہو چکی تھی۔

درحقیقت اگر کبھی کوئی ان کے بیٹے کو بولتے ہوئے سنتا تو وہ سمجھتا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی آواز ہے۔

علی ایک بہت اداس نوجوان تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے اپنا سارا وقت اپنے والدین کے گھر کے اندر چھپ کر گزارنا پڑتا تھا۔

ایک دن علی کے والد اگلے قصبے میں بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ رات ہونے سے پہلے وہاں  تککا اور واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔

علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے سفر میں ساتھ لے جائیں، لیکن اس کے والد اس خیال سے بہت پریشان نظر آئے۔

اس نے کہا، ‘ہم نے آج تک آپ کو کبھی باہر نہیں نکالا اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب ایسا کر سکتا ہوں۔’ ‘میں آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں اور آپ کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتا ہوں؟

‘یہ آسان ہو جائے گا،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں جواب دیا۔ ‘آپ مجھے اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں وہاں ہوں۔ آپ کپڑے میں تھوڑا سا سوراخ کر سکتے ہیں تاکہ میں سانس لے سکوں اور میں دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام نئےنظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں۔’

علی کے والد نے محسوس کیا کہ علی گھر سے نکلنے کے خیال سے کتنا پرجوش تھا، اور اس وجہ سے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ کہنا ناممکن پایا۔

بوڑھے آدمی نے اپنی قمیض کی جیب میں ایک بہت چھوٹا سوراخ کیا اور علی کو اندر چڑھنے میں مدد کی۔

ماں نے سفر کے لیے تھیلے حوالے کیے اور دونوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پھر علی اور اس کے والد پڑوسی شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔

سارا دن سفر کرنے کے بعد علی اور اس کے والد سڑک کے کنارے ہوٹل پہنچے۔

والد نے کہا، ‘ہم یہاں رات کے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیں گے، اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے۔’

‘میں یقین نہیں کر سکتا کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے گا!’ علی نے کہا۔

نوجوان بہت پرجوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہیں سویا تھا۔

علی کے والد نے ایک کمرے کے لیے ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے۔

بوڑھے آدمی کے سامان کھولنے اور نہانے کے بعد، اور علی کو ابھی تک اپنی جیب میں چھپا کر، وہ اس امید کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا کہ شاید وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔

پھر کچھ بہت غیر متوقع ہوا۔ جیسے ہی تمام مہمان رات کے کھانے پر بیٹھے چوروں کا ایک گروہ ہوٹل میں داخل ہوا۔

بے رحم دکھائی دینے والے مردوں نے، جو کہ تین تھے،  بندوقیں اٹھائیں اور حکم دیا کہ ہر مرد اور عورت اپنی رقم اور جو بھی قیمتی سامان ان کے پاس ہے، وہ حوالے کردیں۔

تمام مہمان بہت خوفزدہ تھے جن میں علی کے والد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انہیں کہا گیا تھا، اور اپنے بٹوے اور زیورات کو چوروں کو دینےکے لیے میزوں پر رکھنے لگے۔

اچانک کہیں سے ایک بہت تیز اور بہت گہری آواز آئی۔

‘اپنی بندوقیں نیچے کرو!’ آواز نے حکم دیا. ‘میں وہاں آ رہا ہوں اور میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔’

کوئی نہیں جانتا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ چوروں نے کھانے کے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی شخص تلاش نہ کر سکے۔

پھر آواز آئی، اس بار  پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔ ‘میں تم سے تمہاری شرارتوں کا بدلہ  لوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ تم کئی سال جیل میں گزارو ۔’

چونکہ چور یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے، اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا کہ اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے۔

اور اگر چوروں کو پولیس سے بھی زیادہ کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ بھوت تھے ۔

اچانک، چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر ہوٹل سے بھاگے اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔

اگرچہ مہمان خوش تھے کہ ڈاکو بھاگ گئے ہیں لیکن وہ بھی بھوتوں سے ڈر کر اپنے کمروں میں بھاگ کر چھپ جانا چاہتے تھے۔

‘فکر نہ کرو،’ علی کے والد نے کہا۔ ‘یہ کوئی بھوت نہیں ہے جو بات کر رہا ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔’

اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ علی اس کے ہاتھ پر چڑھ جائے۔ پھر اس نے علی کو آہستہ سے میز پر بٹھایا تاکہ تمام مہمان ہیلو کہہ سکیں۔

‘مجھے یقین ہے کہ ڈاکو واپس نہیں آئیں گے،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں کہا، اس کے چہرے پر ان تمام مہم جوئیوں کی وجہ سے ایک بڑی مسکراہٹ تھی۔

مہمان ایک ایسے لڑکے سے ملنے کے لیے بہت حیران اور بہت متجسس تھے جو انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا۔

لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب علی کے بہت شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں چوروں سے بچا لیا، اور انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے والد سے کہا کہ انہیں اتنا بہادر بیٹا ملنے پر کتنا فخر ہوگا۔

صبح جب وہ بازار کے لیے ہوٹل سے نکلے تو علی کے والد نے اپنے چھوٹے بیٹے کو جیب سے نکال کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔

ساری صبح بازار میں، اور پھر گھر جاتے ہوئے، بوڑھے آدمی کو راہگیروں سے علی کا تعارف کرانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا۔ اور اس نے بہت فخر محسوس کیا اور سب کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا۔

اس شام جب باپ بیٹا گھر پہنچے تو علی کی ماں بہت پریشان نظر آئیں کہ علی ان کے شوہر کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔

‘کیا ہوگا اگر کوئی اسے دیکھ لے؟’ اس نے اپنے شوہر سے پوچھا۔

لیکن بوڑھا آدمی مسکرایا اور اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ان دونوں نے ہوٹل میں  کس مہم جوئی کا تجربہ کیا تھا، اور علی نے کس طرح سب کو بچایا اور چوروں کو ڈرایا۔

‘اپنے بیٹے سے شرمندہ ہونا بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اتنے سالوں تک اسے گھر میں چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں علی اور ان تمام چیزوں پر فخر کرنا چاہیے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔’

علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔

اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں

ایک اچھا دوست

0

یاسین بہت جاوان جب وہ عراق سے انگلینڈ میں منتقل ہوگیا۔
یاسین اپنے گھر سامارا چہور کر نہیں جانا چاتی تھی لیکن سامارا اب بہت حترناک تھا۔
اس کا ابو نے کہا کے انگلینڈ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے جہاں سارے نسل اور مزہب کے لوگ ایک دوسرے کے سات خوشگوار کام کرتے ہیں۔

یاسین کا خاندان اپنے سامان لے کر لنڈن گئ.وہاں بہت اوچے عمارت اور عجائب گھر تھے اور یاسین کا پسندیدہ چیزیں سیارہوم اور دریا ٹیمز پورانا پل کے سات تھا۔
یاسین کجھ وقت کے بعد اپنی پروسی کے سات دوستی ہوئ،اس کا نام تھا غینڈرو۔

پوری گرمیوں کی تعطیلات وہ دونوں پارک گئ ، چڑیا گھر گئ ، غینڈرو نے یاسین کے سات اپنے کھلونے کھیلنے دیا اور اپنے پسندیدہ سپر ہیرو کے بارے میں بتایا اور دونوں نے یاسین کی باغ میں کیمپ بنایا۔

دن پر دن یاسین لنڈن کو گھر سمج لگا اور اس کا انگلیش بہتر ہونے لگا مگر وہ ابھی بولنے میں کمی تھی اور اسی لیۓ شرمندا مہسوس ہوا۔

جب ستمبر اگئ یاسین کو اسکول جانا زاروری تھا اس لیۓ وہ اداس ہوئ لیکن اس کا ابو نے بتایا تعلیم بہت زاروری ہے ۔

بعد میں یاسین کو پتا چل گئ کے وہ عینڈرو کا کلاش میں ہوں گی۔

اگلا دن عینڈرو اور یاسین ایک دوسرے کے سات اسکول گئ اور عینڈرو نے کھیل کا میدان، استاد ، مزاخیا لرکوں اور خوبسورات لرکیوں اور قارئین کے بارے میں بتایا۔ یاسین کبھی قارئین کو نہیں دیکھا لیکن عینڈرو بہت دلچسپی تھی تو وہ زارور اچھا ہوں گا۔

مگر جب وہ کلاسروم پہنچا استانی نے یاسین کو بتایا کے وہ سب کے سامنے اپنے نام بتادوں۔

ایک لرکا نے بولا ‘ بدبودار بے ملکی’ اور سب ہسنے لگۓ اور ایک اور لرکا نے کہا ‘استانی میں سمج نہیں کر سکتی۔وہ انگریز نہیں بول سکتا’ اور سب پھر ہسنے لگۓ۔

یاسین بہت اکیلا اور اوداس مہسوس کر رہا تھا اور استانی اس کو بیٹھنے کی اجازت دیا۔ یاسین عنڈرو کے بیٹھنے کی خوایش تھی مگر وہ ایک لرکی کے سات بیٹھنا پرا۔

وہ لرکی بار بار اجیب سے یاسین کو دیکھا اور وہ الگ کرسی بیٹھنے کے لیۓ استانی کو بولایا-

جب گھنٹی بجگئ سب اپنے کوٹ پین کر کھیلنے کے میدان میں گئ مگر استانی یاسین کو بولایا تاکی وہ اس کو ایک بیج دے سکتے جس کے اوپر یاسین کا نام لیکھا تھا۔

‘اب سب آپ کا نام فورن سیکھ لیں گۓ’ استانی نے کھا۔

یاسین نے اپنے دیماغ مین سوچھا ‘ اب سب مجہ پر اور ہسیں گی’

جب وہ باہر گیا ایک چہوٹا لرکا گھوبگھرالی سنہری بال کے سات یاسین کو لرکی کا نام کہا اور یاسین اس کو سمجانے کا موفا نہیں دیا اور سب پھر ہسرہے تھے۔

یاسین گہر جانا چاتا تھا۔

‘سلام یاسین!’

یاسین پیچھے دیکھ کر عنڈرو کو دیکھا-
عندرو نے دوسرے بچے دیکھ کر کہا

‘آپ سب سے کیا ہوا؟! مین نے اپنے دوست یاسین کو بتایا کے اسکول بہت اچھا ہے- آپ اس کا پہلا دن بوڑا کیو بنا رہے ہیں؟’

‘وہ ہم سے الگ ہے’ ایک لمبی لرکی نے بولا

‘تو؟ آپ بھی الگ ہے۔ آپ پورا اسکول میں سب سب سے لمبی ہےاور جب لوگ آپ کے بارے میں مزاک بناتے ہیں آپ اداس ہوجاتی ہے’

‘اور آپ’ عینڈرو گھوبگھرالی بال لرکا کو دیکھ رہا تھا ‘آپ اداس ہوتے ہے جب لوگ آپ کا بال لرکی کا بال بولتے ہیں’

‘ ہم سب الگ ہیں اور اگر ہم سب ایک دوسرۓ کے ترہا ہوتے ہیں تو زنداگی کیسی ہون گی؟’

سارے بچے خاموش ہو گئ پھر یاسین اپنا سر اوچا رکھ کر مسکرایا اور کہا ‘بوڑینگ’

‘بالکل!’ بہت بوڑینگ’ عنڈرو بھی مسکرایا۔

پھر سارے بچے ایک دوسرے کے سات کہا ‘ بہت بوڑینگ!’

عنںدرو نے کہا کے یاسین سئ ترہا الگ ہے کیونکہ وہ ہاٹ ڈاگز کو پسند نہیں کرتا۔

سب ہسنے لگا اور سب کو بتایاوہ چیز جو ان الگ بناتے ہیں۔

پیٹڑ جینکینز نے اس کا کمیز اٹھا کر سب اس کا جنام کا نشانی فخر کے سات دیکھایا۔

جب کھیلنے کا وقت ختم ہوا عنڈرو نے ہات اٹھا کر استانی کو پوچا ‘کیا ہم اس لوگوں کے بارے میں بات کرسکتے ہیں جو دوسرے ملک سے انگلینڈ آگئ ایک نیا زندگی شرؤ کرنے کے لیۓ ، میرا دوست یاسین کی ترھا؟’

استانی نے کہا انفرادیت زاروری ہے مگر بریتانیءہ کی خوبسوراتی یۓ ہے کی وہ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے۔

یاسن نے کتاب مین دو لفظ لیکھا اور اپنے آپ سے واداہ کیا کی وہ اس لفظ کو سیک لوں گی اور ہمیشا یاد کروں گی۔

وہ ‘دوست’ بھی اپنۓ کتاب مین لیکھا کینکہ وہ بہت شکر گزار تھا کے اس نے ایک سچا دوست ملا جو اس کو کبول کرتا ہے۔

اکیلے نہیں

0

جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ‘آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔’

نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

‘لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہوگا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ‘میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں  جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔’

اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب  وہ انگلینڈ میں اسکول شروع  کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

‘مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا،’ ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچاجب خاندان نے جانا تھا۔ ‘میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!’

اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

جب خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھرجیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں  اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس  ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔

اس کی ماں نے کہا،’ یہ آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہوگا۔’

لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی ۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک  استانی سے ہوئی۔  استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آکر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اوراندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ  اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

دوستانہ بنے چاول تھے نے کہا، ‘ڈیلیسے اندر آؤ۔’ آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔’

نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

‘یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ  ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

Motivational Quotes in Urdu

0

 

منزلیں ہمیشہ ان ہی کو ملتی ہیں جو منزلوں کو تلاش کرتے ہیں

 

اپنے کل کو بہتر کرنے کےلئے.. اپنا آج سنوارو

بہترین دنوں کے لیے برے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے

 

ہجوم کے ساتھ غلط راہ پر چلنے سے بہتر ہے کے آپ تنہا راہ ہدایت پر چل پڑیں

 

 

شخصیت میں عاجزی نہ ہوتو معلومات میں اضافہ علم کو نہیں بلکہ تکبر کو جنم دیتا ہے

 

 

 

تم دوسروں کے راستے کی رکاوٹیں دور کرتے جاؤتمہاری اپنی منزل کا راستہ آسان ہوتا چلا جائے گا

 

There are a lot of inspirational quotations available in Urdu that can help individuals become more inspired and motivated. You can read and share some of the most inspirational quotations ever said in Urdu

sad quotes in urdu

0

20+ One Line Sad quotes in Urdu

 

اور ہمیں تو کوئی کھونے سے بھی نہیں ڈرتا

 

ایسے بھلاۓ جاؤ گے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں

 

sad quotes in urdu

 

 

 

 

Sad quotes that can express your feelingsthese sad quotes will touch your heart and you will feel that its all about you so read and share with those who made you sad and tell them how you are feeling right now