نماز کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں
جواب :
مندرجہ ذیل روایات کے حوالے بھیجتا ہوں ، ان میں دیکھ لیں ۔
(1) : صحيح البخاری : 842
(2) : صحيح مسلم : 1316
(3) : صحيح مسلم : 1317
لیکن واضح الفاظ نہیں ہیں ، اشارتاً بات ہے جو کہ سمجھ میں آتی ہے
سائل :
جی شیخ ان احادیث کا تو علم ہے ، لیکن مجھے ایک مفصل مضمون چاہیے تاکہ ہو سکتا ہے کہ مزید کوئی صریح دلیل مل جائے ورنہ جو مانعین ہیں ، ان کے پاس تو بہت سے دلائل ہیں ۔
جواب :
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ مانعین کے پاس بہت دلائل ہیں ، کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے ، استنباط اور استخراج سے اللہ اکبر کا ترجمہ بدلنا ہے ، سوائے تاویل اور تحریف کے کچھ بھی نہیں ہے ، کہ اللہ اکبر پڑھ سکتے ہیں یا اللہ اعظم پڑھ سکتے ہیں کہ اللہ اجل پڑھ سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب آپ تکبیر تحریمہ کی بات کرتے ہیں ، تو آپ کہتے ہیں ، یہاں تو اللہ اکبر ہے ، اللہ اعظم نہیں چلے گا ، اللہ اجل نہیں چلے گا ، لیکن جب نماز کے بعد تکبیر کی بات آئے تو وہاں تاویلیں شروع ہوجاتی ہیں ، کیونکہ عرب کی تقلید ہو رہی ہے ، ہم جامعہ ابی بکر کراچی میں پڑھتے تھے تو ہم نے اپنے شیخ کو کہا ہے کہ صحیح البخاری میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ میں نماز کے اختتام کو تکبیر سے جانتا تھا ، شیخ نے اس وقت کہا ہے کہ واللہ آج پتا چلا ہے کہ یہ مسئلہ یہاں موجود ہے ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت کے بارے میں کہ یہاں سے تکبیر سے مراد کوئی بھی تعظیم کا کلمہ ہے ، تو ہمارا سوال یہ ہے کہ اللہ اکبر کیا تعظیم کا کلمہ نہیں ہے ، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی کلمہ تعظیم ہے ، غیر ضروری تاویلات ہیں ، یہاں بھی تکبیر کا معنی اللہ اکبر ہے ۔
ایسا واقعہ شیخ زبیر علی زئی نے بھی لکھا ہے ، مقالات میں ایک بہت معروف اور بڑے سعودی عالم کے بارے کہ ان سے بحث ہو گئی تو شیخ نے کہا کہ حدیث بخاری اس پر دال ہے ، پہلے تو سعودی شیخ کو یقین نہیں آیا کہ ایسا کچھ بخاری میں ہے ، پھر بخاری منگوائی دیکھی اور لگے تاویل کرنے کے مراد یہ اور وہ ہے، تو مجلس سے ایک نوجوان نے کہا انا مع شیخ زبیر ، اور تکبیر تکبیر ہی ہے تسبیح و استغفار کا معنی کیسے ہونے لگا واللہ اعلم بالصواب
عرب میں بھی تکبیر بلند آواز سے کہنے کا عمل نہیں ہے ، کوئی “پاکستانی وہابی” بیچارہ کہہ دے تو پوری مسجد گھور گھور کر اسے دیکھتی ہے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ أَبَا مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِكَ إِذَا سَمِعْتُهُ.
عبداللہ بن عباس ؓ کے غلام ابو معبد نے انہیں خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس ؓ نے خبر دی کہ بلند آواز سے ذکر، فرض نماز سے فارغ ہونے پر نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جاری تھا۔
ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں ذکر سن کر لوگوں کی نماز سے فراغت کو سمجھ جاتا تھا۔
[صحیح البخاری 841]
جی اللہ اکبر ذکر بھی ہے ، مطلق کو مقید پر محمول بھی کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اللہ اکبر ذکر ہے یا نہیں ہے ، اسی پر فیصلہ ہو جائے گا ۔
میرے شیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب سے سے سوال کیا تھا ایک حدیث بھیجی ان کو المستدرک الحاکم کی اس میں الفاظ تھے ۔
“مُرو ابا ثابت یتعوّذ”
اب انہی الفاظ سے بریلوی عالم کہہ رہے تھے کہ یہاں سے تعویز دینا لکھنا کرنا کروانا سب ثابت ہے اور حدیث کے آخر میں لکھا ہوا تھا کہ اس کی اصل بخاری میں ہے ، شیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب فرمانے لگے کہ یہ حدیث بالکل ٹھیک ہے ، میں نے سوال دہراتے ہوئے شیخ سے پوچھا کہ شیخنا یعنی آپ فرماتے ہیں کہ تعویذ گنڈے ثابت ہیں ، بڑے حیران ہوئے فرمانے لگے بیٹا تعویز کی تو بات ہی نہیں ہو رہی میں نے کہا شیخنا آپ نے حدیث نہیں پڑھی فرمانے لگے پڑھی میں نے کہا شیخ حدیث میں لکھا ہے ، تعویز کا تذکرہ ہے تو آپ فرما رہے ہیں ٹھیک ہے ، تعویز کا تو ذکر ہی نہیں ہے ، وہ فرمانے لگے تعویز کا کہاں ذکر ہے ، میں نے کہا شیخ آپ اردو پڑھیں فرمانے لگے، میرے بیٹے معذرت میں فقط عربی پڑھ رہا تھا ، اس کی جو ٹرانسلیشن ہے ، وہ غلط کی گئی ہے ، تعویذ سے مراد یہاں معوذتین ہے ، یہ کسی نے معوذتین کا معنی تعویذ لے لیا ہے اور تعویذ سے مراد جو اج کل ہم لے دے رہے ہیں یہ کر دیا ہے ، پھر انہوں نے ایک ابن القیم رحمہ اللہ کا قول پیش کیا اور ساتھ ہی فرمانے لگے کہ میں فقط عربی پڑھ کر آپ کو جواب دے رہا تھا ، مجھے علم نہیں تھا کہ حدیث بھیجنے والے نے ترجمہ کے اندر دو نمبری کی ہوئی ہے ایسا بھی ہو جاتا ہے
حالانکہ کہ مرادی الحنبلی کے قول سے (الانصاف) میں یہی موقف سمجھ آتا ہے کہ استغفار سے پہلے تکبیر کہے گا اور وہاں ان حنابلہ کا ذکر ہے جن کا اس موقف پر قول ہے
“پتہ نہیں فقہ حنبلی اینج کیوں کردے نے”
لہذا یہ کہنا کہ یہ صرف “پاکستانی نام نہاد سلفیوں” کا موقف ہے بالکل غلط اور بے تکی بات ہے
میرے خیال میں ہہاں چند باتیں ملحوظ خاطر رہنی چاہییں
1.ہمارے یہاں بریلوی حضرات نماز کے بعد ابن عباس کی حدیث سے ذکر بالجہر ثابت کرتے ہیں، وہ تخصیص کے بجائے مطلق ذکرسےلاالہ الااللہ، صلوۃ وسلام بلند آواز سےذکر کرتے ہیں، وہ اسی حدیث سے ذکر بالجہر کے منکرین ہر حجت قائم کرتے ہیں
2-اہل تشیع ابن عباس کی حدیث سے نماز کا اختتام بجایے تسلیم کے تکبیر یعنی اللہ اکبر سے کرنا ثابت کرتے ہیں
شاید اہل عرب، اہل تشیع اور اہل بدعت کی مخالفت میں بطور سد ذریعہ بلند ذکر یعنی اللہ اکبر نہ کہتے ہوں بعد ازاں ذکر بالجہر کی مخالفت کی وجہ سے تکبیر بلند اواز کہنا ہی متروک ہو گیا ہو جبکہ برصغیر میں سنت کے احیاء کی تحریک کی وجہ سے اہل حدیث کے ہاں تکبیر کی تخصیص اللہ اکبر بمطابق حدیث، یہ عمل بلند آواز سے جاری ہو گیا جبکہ باقی کلمات ذکر و تسبیحات سری کہے جانے کا رواج رہا بطابق تخصیص عمل بالحدیث جب حدیث سے تکیبر سے مراد اللہ اکبرثابت ہے تو اسی ہر عمل ہوناچاہیے یہی برصغیر کے سلفی، اہل حدیث کا طرہ امتیاز ہے جبکہ اہل عرب کے ہاں کئی سنت سے ثابت عمل فروعات اور محض مستحب سمجھنے کی وجہ سے متروک ہیں
واللہ اعلم و التوفیق الاباللہ